علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث
علامہ قاضی عبد الرزاق بھترالوی صاحب کا انتقال ؛ ایک سنجیدہ علمی روایت کا خاتمہ
مولانا قاضی عبد الرزاق بھترالوی ( راولپنڈی) علم و فضل کی ایک سنجیدہ و متین روایت کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
درسیات کی ابتدا سے ہی قبلہ قاضی صاحب کا نام نامی دل میں گھر کر گیا تھا۔ گو کہ نہ کبھی ان کو دیکھا نہ گفتگو سنی۔ لیکن اس میں حیرت کی بھی کوئی بات نہیں۔ وہ خود بھی کہاں اس راہ چلے کہ کوئی ان کو دیکھے یا بات سنے۔ وہ تو قلم کی دنیا کے شہسوار تھے۔ اور زندگی بھر اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایسا کون شخص ہو گا جس کو عربی و اسلامی درس و تدریس سے واسطہ رہا ہو اور اس نے علامہ بھترالوی کے قلم کی ضیافت سے حظ نہ اٹھایا ہو۔
یاد آتا ہے کہ ہم لوگ فقہ کی بنیادی درسی کتاب "نور الایضاح" پر تحریر کردہ علامہ صاحب کے حواشی بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ان حواشی کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک تو بہت عمدہ نکات پر مشتمل ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ نہایت سہل اور رواں عربی زبان میں ہوتے تھے جس سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوتا کہ کتاب کا متن بھی خوب واضح ہو جاتا ، متن سے جڑی ہوئی کئی مفید علمی و فقہی ابحاث بھی سامنے آ جاتیں اور ساتھ ہی ساتھ غیر محسوس انداز میں عربی زبان کی استعداد میں بھی اضافہ ہو جاتا۔ بعد میں جب کبھی غور کیا اسی نتیجے پر پہنچے کہ یہ علامہ بھترالوی کے حواشی کا بخشا ہوا اعتبار ہے جس کی وجہ سے آج چار لوگ ہمیں جانتے ہیں۔
عربی گرائمر کے فلسفے پر مشتمل ایک نہایت عظیم و جلیل کتاب 'مراح الارواح' ہے جس کے متن کو علامہ بھترالوی نے بڑے خوبصورت اور سہل انداز میں حل کیا ہے۔ شاید یہ کہنا درست ہو گا کہ اس وقت اگر کوئی شخص اس کتاب کے فہم سے دور ہے تو اس وجہ سے دور ہے کہ اس نے علامہ بھترالوی کے حواشی سے استفادہ نہیں کیا ہو گا۔ اور جس نے استفادہ کیا ہے اس کے پاس عربی گرائمر و ادبیات و انشاء کا وہ خزانہ ہے جو کم ہی کسی کے پاس ہو گا۔
اس سے آگے چلیے تو فقہ حنفی کے مقبولِ عام متنِ متین "قدُوری" پر علامہ بھترالوی کے حواشی بھی نہایت عمدہ ہیں مگر ایک نہایت پیچیدہ فقہی متن " کنز الدقائق " (جس کو سمجھنے کی لیاقت بھی اب چند ایک گنے چنے افراد میں رہ گئی ہو گی) پر حواشی بھی علامہ صاحب قبلہ کا صدیوں یاد رکھا جانے والا کارنامہ ہے۔ فقہ حنفی و شافعی و مالکی و حنبلی کے مابین تقابل اور خصوصا ائمہ احناف کے فقہی نکتہ نظر کے درمیان تقابل کے حوالے سے قدوری کی شرح "الہدایہ" مشہور و مقبولِ شرق و غرب ہے۔ جس کے حواشی و شروحات اور ان میں زبانوں کے تنوع کا سلسلہ دراز ہے۔ اس کتاب پر بھی علامہ بھترالوی کے گرانقدر عربی حواشی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اردو میں بھی کئی اہم تحقیقی تصانیف اور قرآن کریم کی ایک اردو تفسیر بھی لکھی ہے۔ علامہ بھترالوی کی کتب و حواشی کا انداز تحقیقی اور سنجیدہ ہے اور خالص علمی ہے۔ ان کی تصانیف پر یونیورسٹیز میں بھی تحقیق ہونی چاہیے اور اچھا کام کرنے والے محققین کو بھی اس پہلو پر لکھنا چاہیے۔
اس وقت جو بات سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان سے خودکش بےاعتنائی کے اس دور میں ایسے کسی عالم کا اٹھ جانا جو عربی زبان میں اس قدر سنجیدہ و علمی کام کر رہے ہوں ایک ایسا خسارہ ہے جس کے ازالے کی بھی شاید کوئی صورت نہیں۔ دوسرے یہ کہ اب ہمارے درمیان ایسے نفوس کتنے ہیں جن پر واقعتاً عالم کا اطلاق ہو سکے اور جو موجودہ جذباتیت زدہ ماحول و روش سے ہٹ کر خالصتاً علمی انداز میں کام کرنے پر یقین رکھتے ہوں اور کسی وقتی نعرہ و بازی و چٹکلے بازی سے دور رہتے ہوئے جادۂ اسلاف پر گامزن ہوں بلکہ سلف صالحین کی جیتی جاگتی تصویر ہوں۔
شاعر نے سچ ہی تو کہا ہے:
و افجع من فقدنا من وجدنا
قبیل الفقد مفقود المثال
جس کو ہم کھویا ہے
اس کے حوالے سے
سب سے المناک بات یہ ہے
کہ اس کا مثل کوئی نہیں ہے
یقینا کسی پیمانے سے اس سانحے کی شدت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ لیکن اگر ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو یہ اسی قسم کا خسارہ ہے جو استاذ الاساتذہ علامہ عطا محمد بندیالوی ، مفتی عبد القیوم ہزاروی ، علامہ عبد الحکیم شرف قادری ، علامہ مفتی محمد اشرف سیالوی ، استاذ العصر مفتی ارشاد صاحب ( خانیوال) اور علامہ غلام رسول سعیدی کے انتقال کی صورت میں ہوا تھا۔
خدا تعالی ان بزرگوں کے وسیلے سے ان کے امثال پیدا فرمائے ، ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بےحساب بخشش فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ و سلم
از قلم:
احمد رضا عطاری المدنی
جامعۃ المدینہ گلزار حبیب ، سبزہ زار ، لاہور۔
Comments
Post a Comment