علماء سوء اور علماء حق
*مساجد چند معروضات*
پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور
اس وقت مساجد میں نماز اور اتصال صفوف کے حوالے سے علماء کرام کے ما بین جو کشاکش چل رہی ہے، اس پر احباب کی چند نکات کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہوں.
حکومت اور بعض علماء کرام کا کہنا تھا کہ کرونا کی وجہ سے مساجد مقفل کر دی جائیں اور نمازیں گھروں میں پڑھی جائیں، لیکن مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمن صاحب اور دیگر مسالک کے جید علماء کرام نے سٹینڈ لیا اور کہا کہ مساجد کھلی رہیں گی،
یقیناً یہ ایک قابل تحسین امر تھا، جمہور عوام و علماء کرام نے اس موقف کا ساتھ دیا،جس کی وجہ سے
حکومت کو بالآخر نہ چاہتے ہوئے بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور مساجد میں نمازوں کا سلسلہ جاری رہا...
مزید یہ کہ وہ جمعے جو بند کر دیے گئے تھے جہد مسلسل کے سبب اب وہ بھی بحال ہو گئے ہیں، نیز یہ کہ رمضان میں نماز تراويح بھی ہو گی...ورنہ لوگوں کا رمضان اللہ کے گھروں سے محرومی کی حالت میں گزرتا.
اگر ایک مرتبہ لبرل حکمرانوں کے ہاتھوں خدا کے گھر مقفل ہو جاتے تو پھر یہ ایک ایسی مثال بن جاتی جو انہیں موقع بموقع مداخلت کا جواز مہیا کر دیتی.. لیکن انہیں اس معاملے میں علماء کرام کی بروقت جدوجہد کی وجہ سے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا.
حکمرانوں نے ان علماء کرام کو ساتھ ملا کر جن کا موقف مساجد کو بند کر دینے کا تھا مفتی منیب الرحمن صاحب و ہم نوا جمہور علماء کو نیچا دکھانے کی بہت کوشش کی، مگر مفتی صاحب کا پلڑا بھاری رہا..
اب مساجد کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے سوال پیدا ہوا کہ نمازوں کے دوران فاصلہ بھی رکھا جائے یا نہیں؟ بوڑھے لوگوں کو بھی اجازت دی جائے یا نہیں؟وغیرہ وغیرہ،
چونکہ بعض مقامات کے علاوہ سارا ملک(بلکہ ہر ملک) بند ہوا پڑا تھا ، میڈیا نے لوگوں کو حد سے زیادہ ڈرا بھی رکھا تھا ، اوپر سے تالے والے علماء کرام کے فتاویٰ بھی موجود تھے، اب اگر یہاں مفتی منیب الرحمن صاحب و جمہور علماء کرام ضد کرتے کہ نہیں، ہم ان شرائط کو بھی نہیں مانتے تو پھر انہیں عوامی اعتماد سے محرومی کا سامنا کرنا پڑتا، لوگ دین کے بارے میں طرح طرح کے وساوس کا شکار ہوتے کہ دیکھو دین بندوں کو مرواتا ہے، اسے کسی کی جان کی پروا نہیں، لہذا تمام مسالک کے جید علماء کرام ، دعوت اسلامی، بھیرہ شریف و دیگر نے صفوں میں فاصلے رکھنے وغیرہ کی شرائط کو قبول کر لیا، ان کے فتاویٰ بھی موجود ہیں .
مگر افسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر سیاسی شعور سے عاری، اور عقل سے پیدل چند کتابی مولوی صاحبان جنہیں ملکی و حکومتی معاملات کی خاک بھی خبر نہیں، وہ جمہور علماء کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں.
ایسوں سے ہماری گزارش ہے کہ پہلے تو انہیں جمہور علماء کرام کا شکر گزار ہونا چاہیے تھا کہ ان کی کاوشوں کے سبب مساجد کھل چکیں اور وہ ان میں نمازیں ادا کر رہے ہیں.
لیکن اگر وہ بڑے ہی صاحب ایمان اور مجاہدین اسلام ہیں تو پھر چوں چاں کرنے کی بجائے سیدھے سیدھے تحریک چلائیں اور حکومت وقت کو للکاریں.. وہ صرف اپنی مسجد کی بات نہ کریں بلکہ تمام مساجد کی بات کریں اور عوامی ریلوں کے ساتھ میدان عمل میں کود پڑیں، تاکہ احقاق حق و ابطال باطل ہو سکے.
اگر وہ میدان میں نہ نکلے اور صرف مساجد کھلوانے کی جدوجہد کرنے والے جمہور علماء کرام پر ہی کیچڑ اچھالتے رہے تو یہ ان کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہو گا.
Comments
Post a Comment