ڈرامہ ارطغرل

تحریر : عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور

*ڈرامہ ارطغرل:طالب علمانہ رائے*

یاد رہے کہ اللہ و رسول کا ہی حلال، حلال ہے اور حرام، حرام ہے.. کسی بھی بندہ بشر کو قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی ذاتی رائے سے ان کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال قرار دے سکے.

بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب ان کے متعلق زیادہ کھود کرید کی جائے اور گہرائی میں اترتے چلے جائیں تو حکم سخت سے سخت تر ہوتا چلا جاتا ہے، جیسا کہ ایک کنویں کے پانی کے متعلق کسی نے پاک نا پاک ہونے کی تحقیق کرنا چاہی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے منع فرما دیا.... ہمارے نزدیک اس معاملے کو بھی ایشو بنا کر اٹھانا عامۃ الناس کی پریشانیوں میں شدید اضافہ کرنا ہے.

اس ڈرامے کو امت کی ایک بڑی تعداد دیکھ رہی ہے اور اس کے سبب وہ کثیر اسلامی فوائد حاصل ہو رہے ہیں جن کے لیے مذہبی تنظیمات اگر اربوں کھربوں بھی خرچ کریں تو شاید اتنے فوائد حاصل نہ ہو سکیں.

اگر اس میں کسی جگہ کوئی ممنوع منظر وغیرہ آتا ہے تو امت کے کسی بھی فرد کے ذہن میں اس کو دیکھتے ہوئے قطعا یہ خیال نہیں آتا کہ وہ شرعا بھی درست ہے، وہ تو ازروئے ایمان شریعت کے حرام کو حرام ہی جانتا ہے.

اس ڈرامے کی مثال اس کہانی جیسی ہے جو پرانے قصہ گو حضرات لوگوں کو سناتے تھے، جس میں ہر طرح کے اچھے برے کردار بھی ہوتے تھے، لوگ ان سے وہ کہانی ذوق و شوق سے سن کر کوئی نہ کوئی نصیحت حاصل کرتے تھے.

اس وقت دنیا میں آئیڈیل اسلامی معاشرہ کہیں بھی موجود نہیں ہے، اور سب جانتے ہیں کہ مروج معاشروں میں سب کچھ مکمّل شریعت کے عین مطابق نہیں چل رہا ،بہت سی چیزوں کو با دل نخواستہ قبول کرنا پڑتا ہے، مثلاً اس وقت جو بھی بندہ کرنسی نوٹ استعمال کر رہا ہے وہ لازما بینکوں کے سودی نظام سے ہو کر بندے کے پاس آ رہے ہیں اور واپس بھی وہیں جاتے ہیں . لیکن ہر متقی سے متقی مسلمان بھی انھیں استعمال کرنے پر مجبور ہے.
بالکل اسی طرح عام لوگ اس وقت بد ترین فلموں ڈراموں کے سخت عادی ہو چکے ہیں اور ہم انہیں ان سے عملی طور پر روکنے کی پوزیشن میں بھی بالکل نہیں ہیں... ایسے میں اگر وہ کوئی ایسا ڈرامہ بھی ساتھ دیکھ لیتے ہیں جس سے انہیں اسی فیصد اسلامی ماحول سمجھ آ جاتا ہے ، تو اس سے انہیں بصورت فتویٰ روکنا مستقل طور پر گندگی کے سپرد کیے رکھنے کے مترادف ہے.

ہماری مستند معلومات کے مطابق اس ڈرامے کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو اپنی اسلامی تاریخ سے آگاہی حاصل ہوئی ہے، جذبہ جہاد پیدا ہوا ہے، عشق رسول بیدار ہوا ہے، اسلام سے محبت میں اضافہ ہوا ہے، کفر سے نفرت پیدا ہوئی ہے، علماء کی عظمت اجاگر ہوئی ہے، حتی کہ کئی غیر مسلموں کے مسلمان ہونے تک کی بھی خبریں موصول ہوئی ہیں، وغیرہ وغیرہ.. تو اس کو دیکھنے سے انہیں منع کرنا جہاں ان فوائد سے محرومی کا سبب ہے وہاں اسلام کے لیے ایک بہت بڑا نیا محاذ بھی کھولنا ہے جس کے ہم بالکل متحمل نہیں ہیں .

مزید یہ کہ عالم کفر اس ڈرامے کی وجہ سے سخت پریشان ہے، اسے مسلمانوں کو دین سے دور رکھنے کی اپنی زندگی بھر کی محنت اکارت ہوتی نظر آ رہی ہے، اس لیے وہ اس ڈرامے سے مسلمانوں کو دور رکھنے کے لیے انتہائی حد تک کوشاں ہے، لہذا منع و عدم منع کی بات کرتے ہوئے کفر کی اس بے چینی کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے.

خلاصہ یہ کہ اس ڈرامے کو فی الوقت فتویٰ کا موضوع بنانے کا موقع نہیں ہے، جو حضرات اپنی گہری تحقیق کی بنیاد پر اس سے دور ہیں وہ ضرور اپنی تحقیق پہ عمل کریں لیکن اپنی تحقیق کی بنیاد پر عامۃ الناس کو ایک نئے محاذ پر ہرگز نہ لا کھڑا کریں.

نوٹ: راقم کے گھر نہ تو آج تک ٹی وی داخل ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی اپنی زندگی میں اسے گھر لانے کا پروگرام ہے.

Comments

Popular posts from this blog

کلام الامام امامالکلام

علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث

نہ کوئ گل باقی رہے گا