خلافت عثمانیہ


*ترکی میں اسلام پسندوں کے کارنامہ
میں جب ترکی گیا تووہاں کی اصلاحی تحریک پرت در پرت کھلنا شروع ہوئی۔ترکی میں جہاں اعلی سطح کے عہدے داراں سے ملاقات ہوئی وہیں پر ہمیں عام لوگوں، شہریوں اور ائمہ سے ملاقات کا موقع ملا۔ رفتہ رفتہ وہاں پر جاری اصلاحی کاموں کا علم ہونے لگا۔ ہمیں پتہ چلا کہ *وہاں پر عوامی آگہی اور شعور کا آغاز اصلاح و ارشاد سے تعلق رکھنے والے طبقہ سے ہواہے۔* ترک اسلام پسندوں نے دنیائے اسلام کو دو بڑے طوفانوں میں سنبھالا دیا ہے۔ پہلا اس وقت جب تاتاری یلغار نے عالم اسلام کے حصے بخرے کردیئے، دوسرا اس وقت جب مصطفی کمال کے فاشزم نے ترکی کو بے راہ روی، بے دینی اور آوارگی کا مرکز بنادیا تھا۔
مصطفی کمال کی مجہول الحال شخصیت کو اتاترک کا لقب ان شرائط کی بنیاد پر ملا تھا:

*اسلامی شعائر کا خاتمہ*

*اسلامی قانون کا خاتمہ*

*ترکی معدنی ذخائر نہ نکال سکے*

*اور نہ بحری ٹیکس لے سکے۔*

مصطفی کمال کے دور میں اتنا جبر تھا کہ 40 سال قبل وہاں تعلیم کے لئے جانے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا: وہاں کوئی نماز پڑھتا نظر آجاتا تو سیکولر حضرات ایکشن میں آجاتے۔ میں نے نماز پڑھنا چاہی تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ایک تولیہ رکھو۔ حمام میں جاکر وضو کرو، پھر وہیں *چھپ کر نماز پڑھ لو۔* اس لئے کہ ترک حمام خوبصورتی، صفائی اور تعمیراتی حسن کا شاہکار ہوتے ہیں۔ اس دور میں اگر کسی شخص کی جیب سے اسلامی سال کی جنتری نکل آتی تو اسے جیل ہوجاتی تھی۔خلافت عثمانیہ کے دور میں شیخ، خطیب، واعظ، عالم، مفتی، قاضی، یہ چھ تعلیمی ڈگریاں تھیں۔مصطفی کمال نے یہ ساری ڈگریاں ختم کردیں۔
اس دور میں لوگوں نے ایمان کی شمع روشن کئے رکھی۔ مسلمانوں نے بظاہر شراب خانہ نظر آنے والی جگہوں میں دین پڑھانے کے حلقے جمائے رکھے۔ رات دو سے صبح 6 بجے تک وہاں قرآن کی کلاس لگتی۔ ٹرینوں میں کیبن بک کرواتے، ایک اسٹیشن سے دوسرے تک کا ٹکٹ لیتے۔دروازہ بند کرکے اس میں پڑھنا پڑھانا جاری رکھتے۔ کھیتوں میں قرآن کی درس گاہیں جمتیں۔ دنیا کو اعتدال، نرمی اور محبت کا درس دینے والے ان سیکولرز کے جبر سے بچنے کے لئے تہہ خانوں میں قرآن کی کلاسیں ہوتیں۔
*شیخ محمود آفندی وہاں کے بہت بڑے اور مشہور نقشبندی شیخ ہیں۔*

Comments

Popular posts from this blog

کلام الامام امامالکلام

علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث

نہ کوئ گل باقی رہے گا