شہیدآزادی مولانا کفایت اللہ کافی
اِنقلابِ 1857ء کا ایک ناقابل فراموش کردار
بر عظیم کے کلاسک اُردو نعتیہ ادب کے معمار
مولانا سیّد کفایت علی کافیؔ مرادآبادی رحمةالله عليه
حضرت مولانا کفایت علی کافیؔ ایک معزز سادات خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ کے آباؤ اجداد مراد آباد کے قدیم باشندگان سے تھے۔ والد کا نام رحم علی تھا۔
سیّد کفایت علی کافیؔ کی پیدائش کا سنہ معلوم نہیں ہوسکا۔ ابتدائی تعلیم مراد آباد میں حاصل کی، پھر بریلی اور بدایوں میں تحصیل علم کے سلسلے میں رہے۔ حضرت شاہ ابو سعید مجددی (متوفی 1250ھ/ 1835ء) سے علم حدیث پڑھا۔ نیز مفتی ظہور اللہ انصاری فرنگی محلّی (متوفی 1256ھ/1840ء) سے بھی تلمذ حاصل کیا۔ حکیم شیر علی صدیقی احمد آبادی (متوفی 1256ھ/ 1840ء) سے فن طب اور ملک الشعرا شیخ مہدی علی ذکیؔ مراد آبادی (متوفی 1282-3ھ/ 1866ء) سے فن شاعری سیکھا۔
مولانا کافیؔ اپنے وقت کے جید عالم دین، اور فقیہ و مفتی تھے۔ علومِ متداولہ میں کمال حاصل تھا۔ طب، ادب، عروض، شاعری اور تاریخ گوئی میں میں کامل مہارت رکھتے تھے۔
علمی فضائل کے علاوہ آپ کی ایک حیثیت مجاہد جنگ آزادی کی بھی ہے۔ مولانا کافی نے 1857ء کے جہادِ آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ نے بڑی شجاعت و جواں مردی کے ساتھ قابض انگریزوں کے خلاف بغاوت کا اِعلان کیا اور جہادِ حریت کے اکابر راہ نماؤں کے ساتھ مل کر اِس تحریک کو لے کر آگے بڑھے۔ اِس سلسلہ میں کچھ عرصہ آگرہ، پھر روہیل کھنڈ میں بریلی، پھر رام پور میں قیام پزیر رہے۔ اس کے بعد مراد آباد پہنچے اور ہر جگہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی آواز پہنچائی۔ اِن تبلیغی دوروں سے وہاں کے لوگوں میں اِنقلاب کی ایک نئی روح پھونکنے کا موقع ملا۔ اِسی دوران مولانا نے انگریز کے خلاف فتوی جہاد جاری کیا اور اس فتویٰ کی نقلیں تیار کرکے دوسرے مقامات پر بھجوائیں، بلکہ بعض علاقوں میں خود بھی تشریف لے گئے۔
مراد آباد میں آزاد حکومت کے قیام کے بعد جب انگریز بھاگ کر دوسرے علاقوں میں چلے گئے، تو حاکم شہر نواب مجد الدین عرف نواب مجو خاں نے مولانا کافیؔ کو ’’صدر الشریعہ‘‘ کے منصب پر فائز کیا۔ چناںچہ آپ روزانہ مجاہدین کو احکامِ شرعیہ تعلیم فرماتے، نیز جمعہ کے روز نمازِ جمعہ کے بعد مولانا وہاج الدین مراد آبادی عرف مولوی مَنّو (متوفی 1274ھ/ 1858ء) کے ساتھ مل کر مساجد کے تحفظ کے لیے وعظ بھی فرمایا کرتے تھے۔
اپریل 1858ء کو جب مراد آباد پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، تو مولانا کافی روپوش ہو گئے، لیکن ایک غدار فخر الدین کلال کی مخبری پر گرفتار کیے گئے۔ گرفتاری کے بعد انگریز نے مولانا کافیؔ سے گن گن کر بدلے لیے۔ جیل میں کڑی سے کڑی سزائیں دی گئیں، جسم پر گرم گرم اِستری لگائی جاتی، زخموں پر نمک مرچ چھڑکائی جاتی۔ آخر کار 4 مئی 1858ء کو مولانا کافیؔ کا مقدمہ عدالت میں پیش ہوا۔ انگریز مجسٹریٹ جان انگلسن نے پھانسی کا حکم سنایا۔ چناںچہ 22 رمضان 1274ھ/ 6 مئی 1858ء کو مراد آباد جیل کے سامنے چوک میں مجمع عام کے رُو بہ رُو پھانسی دِی گئی۔ جس وقت کافیؔ شہید کو تختہ دار کی طرف لے جایا جارہا تھا، اُس وقت آپ بہ بانگِ دہل اپنی ایک تازہ نظم پڑھ رہے تھے، جو آپ کے کلام میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔
کوئی گل باقی رہے گا نَے چمن رہ جائے گا
پر رسول اللہ کا دِین حسن رہ جائے گا
ہم صفیرو! باغ میں ہے کوئی دم کا چہچہا
بلبلیں اُڑ جائیں گی، سونا چمن رہ جائے گا
اَطلس و کمخواب کی پوشاک پر نازاں نہ ہو
اِس تن بے جان پر خاکی کفن رہ جائے گا
نامِ شاہانِ جہاں مٹ جائیں گے لیکن یہاں
حشر تک نام و نشانِ پنج تن رہ جائے گا
جو پڑھے گا صاحبِ لولاک کے اُوپر درود
آگ سے محفوظ اُس کا تن بدن رہ جائے گا
سب فنا ہو جائیں گے کافیؔ و لیکن حشر تک
نعتِ حضرت کا زبانوں پہ سخن رہ جائے گا
حضرت کافیؔ مراد آبادی ایک عہد ساز نعت گو شاعر تھے۔ بر عظیم کی اُردو نعتیہ شاعری میں آپ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ فن شاعری میں ان کا موضوعِ سخن صرف نعت رہا، جب کہ کافی کی نعت کے خصوصی موضوعات میلاد شریف، دُرود و سلام، مدینۃ النبی، عشق رسول اور رسول اللہ ﷺ کے شمائل و خصائل تھے۔ زیادہ تر نعت گوئی صنفِ مثنوی اور غزل میں کی۔
حضرت کافیؔ ایک سچے عاشق رسول تھے۔ اُنھوں نے بارگاہِ رسول کے آداب اور عشق رسول کے تمام تر تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر نعتیں کہیں۔ محبتِ رسول میں ڈوب کر کہی ہوئی اُن کی نعتوں سے شیفتگی، وارفتگی اور فنائیت بہت عیاں ہے۔ فراقِ رسول میں آپ کا کلام اِس قدر دِل گداز اور پُر سوز ہے کہ پڑھنے اور سننے والوں کو بھی تڑپا کر رکھ دیتا ہے۔ الغرض، حضرت کافیؔ نے اپنی نعتیہ شاعری سے بر عظیم میں عشق رِسالت مآب کی تحریک کو کئی جہات سے نمایاں طور پر فروغ دیا۔ پروفیسر ڈاکٹر ریاض مجید لکھتے ہیں:
’’کافیؔ کے لیے نعت گوئی ایک رسم نہیں، ایک قلبی واردات کا درجہ رکھتی ہے۔ اُنھوں نے جس محبت میں ڈوب کر نعتیں لکھی ہیں وہ اُس عہد کے بہت کم شاعروں کے ہاں نظر آتی ہے۔ ان کی یہ مشہور نعت دیکھیے، جس کے مصرع مصرع سے والہانہ پن ٹپکتا محسوس ہوتا ہے:
؎دیکھتے جلوۂ دیدار کو آتے جاتے…
کافیؔ کے ہاں اِس قبیل کے اور سینکڑوں اَشعار اور متعدد نعتیں مل جاتی ہیں، جن میں نعت کے موضوعات کے بیان میں اُن کے داخلی اِحساسات اور کیفیات واردات کا مؤثر بیان نظر آتا ہے۔ بہ حیثیتِ مجموعی اُنھوں نے اُردو نعت کو اِخلاص، درد مندی اور سر مستی و شیفتگی عطا کی اور اُردو نعت کو ایک رسمی و روایتی دائرے سے نکال کر اسے سچے تخلیقی تجربہ کے طور پر پیش کیا۔ ان کی نعتیں کیف و گداز اور فنی محاسن کے اِعتبار سے بلند پایہ ہیں۔ اُنھوں نے مابعد کے نعت گو شعرا کو نہ صرف متاثر کیا، بلکہ اُن کے ذوقِ نعت کے لیے ایک تحریک کا کام کیا۔ مولانا احمد رضا خاں اور دوسرے کئی شاعروں کے ہاں کافیؔ کے اَثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔‘‘
(اُردو میں نعت گوئی، صفحہ 313-5)
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی (متوفی 1340ھ/ 1921ء) نے حضرت کافیؔ کو ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے:
؎ پرواز میں جب مدحتِ شہ میں آؤں
تا عرش پرِ فکرِ رسا سے جاؤں
مضمون کی بندش تو میسر ہے رضاؔ
کافیؔ کا دردِ دِل کہاں سے لاؤں
دوسری جگہ فرمایا:
؎ مہکا ہے مرے بوئے دہن سے عالم
یاں نغمۂ شیریں نہیں تلخی سے بہم
کافیؔ سلطانِ نعت گویاں ہیں رضاؔ
اِن شاء اللہ مَیں وزیر اعظم!!
(حدائق بخشش، حصہ سوم ص 105-6)
حضرت رضاؔ بریلوی‘ مولانا کافیؔ کی نعتیں بڑے شوق سے سنا کرتے تھے اور آپ کے کلام کی بڑی تعریف فرمایا کرتے تھے۔ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی (متوفی 1402ھ/ 1981ء) نقل کرتے ہیں کہ ایک صاحب شاہ نیاز احمد بریلوی کے عرس میں بریلی آئے، اعلیٰ حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کچھ نعتیہ اشعار سنانے کی درخواست کی۔ پوچھا: کس کا کلام ہے؟ بتانے پر اِرشاد فرمایا:
’’سوا دو کے کلام کے کسی کا کلام مَیں قصداً نہیں سنتا۔ مولانا کافیؔ اور حسنؔ میاں مرحوم کا کلام اَوّل سے آخر تک شریعت کے دائرہ میں ہے۔… غرض ہندی نعت گویوں میں اِن دو کا کلام ایسا ہے، باقی اکثر دیکھا گیا کہ قدم ڈگمگا جاتا ہے۔‘‘ (الملفوظ 2 / 39-40)
حضرت کافیؔ کی اب تک 8 تصانیف دست یاب ہوئی ہیں، جو سب اُردو نظم میں ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں:
1- بہارِ خلد
اِمام ترمذی (متوفی 279ھ/ 892ء) کی کتاب ’’الشمائل النبویّۃ‘‘ معروف بہ ’’شمائل ترمذی‘‘ کا ترجمہ
2- خیابانِ فردوس
فضائل درود شریف پر حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی (متوفی 1052ھ/ 1642ء) کے فارسی رسالہ ’’ترغیب اہل السعادات علٰی تکثیر الصلٰوۃ علٰی سیّد الکائنات‘‘ کا ترجمہ
3- نسیم جنت
چالیس احادیث در بیان محبتِ رسول، فضائل وِردِ درودِ گرامی، توصیفِ اہل بیتِ کرام و صحابہ عظام، مصائبِ قبر کا اُردو ترجمہ مع مختصر تشریح
4- مولدِ شریف بہاریہ مع حلیہ شریفہ
بہاری تشبیب میں یہ مولد نامہ نظم کیا گیا ہے۔
5- داستانِ صادقاں
مولوی محمد اِسحق بدایونی (متوفی 1297ھ/ 1879-80ء) کے ایک رسالہ کو بنیاد بناکر یہ رسالہ نظم کیا۔ اِس میں رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد حضرات عشاق صحابہ کرام اور حضرت اویس قرنی کے فراق کا حال بیان کیا گیا ہے۔
6- مثنویِ تجمل دربارِ رحمت بارِ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم
حج وزیارتِ حرمین کے موقع پر دربارِ رسالت اور مسجد نبوی کے پُر کیف، وجد آفریں مناظر کا دِل کش بیان
7- قصہ بست اصحاب
حضرت ابن عباس سے مروی اُن 20 صحابہ کا واقعہ جنھیں رومی لشکر نے قید کرکے تبدیلی مذہب نہ کرنے پر قتل کرڈالا تھا، ان میں ایک باقی بچ گئے اُن کی داستانِ محبت کو عاشقانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
8- دیوانِ کافیؔ
ان کے علاوہ کچھ نعتیہ غزلیں، مخمسات اور قطعات ہیں، جو متفرق مجموعوں میں شائع شدہ ہیں۔
’’اوقاتِ صرف و نحو‘‘ بھی مولانا کافیؔ کی تالیف ہے، مگر تاحال یہ نہیں مل سکی۔
حضرت کافیؔ اُردو کے نعتیہ ادب کی ایک عہد آور شخصیت تھے، مولانا کی زندگی میں اور بعد وفات ایک عرصہ تک آپ کی تصانیف شائع ہوتی رہیں، مگر پھر جیسے آپ کو بھلا دیا گیا، جسے ایک صدی ہونے کو ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان سے ہم نے ’’دارُ الاسلام- لاہور‘‘ سے ’’کلیاتِ کافی‘‘ کی تدوین و اِشاعت کا ذمہ لیا ہے۔ حضرت کافیؔ کی شہادت کے 164 سال بعد یہ عظیم الشان تاریخی کارنامہ انجام پا رہا ہے۔ ان شاء اللہ اسی سال اس کلیات کی تکمیل ترتیب و اشاعت ہوجائے گی۔ و باللہ التوفیق!
محمد رضاء الحسن قادری
Comments
Post a Comment