کیا کرؤنا وائرس پھیلتا ہیں؟

تحریر از سیدی قبلہ جناب جی ابوامامہ البکری الصدیقی حفظه الله. 💚
بیماری کے متعدی ہونے کی شرعی حیثیت :

《کیا یہ درست ہے کہ کوئی بیماری کسی ایک شخص سے دوسرے کو بھی لگ جاتی ہے؟
 کیا بیماری سے پہلے حفاظتی اقدامات کرنا شرعاً ناجائز ہے؟ 》

*حالیہ دنوں مین چائنہ سے پھیلنے والی ایک بیماری جو بہت تیزی سے پھیل رہی ہے، اس سے متعلق 
 ایک مسئلہ جو زیر بحث ہے وہ ہے اس وائرس کا ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہونا،اس سے بچنے کیلئے حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا، یعنی ماھرین کا کہنا ہے کہ دوسری بہت سی بیماریوں کی طرح یہ بیماری بھی متعدی ہے جو کہ ایک شخص سے دوسرے میں منتقل ہو جاتی ہے،
جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہوتی،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی  احادیث میں یہ بات موجود ہے کہ چھوت چھات کی کوئی حقیقت نہیں، بیماری ایک شخص سے دوسرے کو نہیں لگتی،جبکہ یہ بات بھی واضح ھے کہ بہت سی بیماریاں متعدی ہوتی ہیں :

*سب سے پہلے وہ احادیث جن میں کسی بھی بیماری کے متعدی نا ہونے کا ذکر ہے،*

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ،)
“کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا )ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے،

(صحیح البخاری، الطب، باب لاھامۃ، ح:5757)

اور صحیح مسلم میں اس طرح کے الفاظ ہیں؛
لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ، وَلَا صَفَرَ، وَلَا نَوْءَ، وَلَا غُولَ، وَلَا يُورِدُ مُمْرِضٌ عَ
“کوئی بیماری متعدی نہیں، بدفالی اور بدشگونی کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔ نہ الو کا بولنا (کوئی برا اثر رکھتا )ہے اور نہ ہی ماہ صفر(منحوس)ہے اور ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ بھی باطل ہے اور چھلاوہ (بھوتوں) کا بھی کوئی وجود نہیں،

(صحيح مسلم | كِتَابٌ : السَّلَامُ. | بَابٌ : لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ،2222)

ان احادیث میں چار چیزوں کی نفی کی گئی ہے، جو کہ درج ذیل ہیں،

1-عدوی_ کسی بیماری کا متعدی ہونا،
2-طیرہ_ کسی چیز سے بد شگونی لینا
3-ھامہ_ الو کا بولنا،
4-صفر_ماہ صفر کو منحوس سمجھنا،

*ان میں سے آخری تینوں چیزوں کی وضاحت، نفی اور انکی شرعی حیثیت بیان  ھو چکی ہیں، لہذا یہاں صرف “عدوی” کے بارے :

*عدوی یعنی متعدی بیماری*
سب سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ “عدوى‘‘ ایک مریض سے تندرست آدمی کی طرف مرض کے منتقل ہونے کو کہتے ہیں،یعنی کوئی بیماری کسی ایک شخص سے دوسرے کو اس سے ملنے جلنے کیوجہ سے منتقل ہو جائے چھوت چھات ہے کہلاتی ہے، اوپر ذکر کردہ احادیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چیز کی نفی کی ہے کہ کوئی بھی بیماری متعدی نہیں ہوتی،

*اوپر ذکر کردہ احادیث کی وضاحت*

یہ چار چیزیں جن کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی فرمائی ہے دراصل اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل اور صدق عزیمت کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور یہ تمام کی تمام چیزیں اس بات کی طرف راہنمائی کرتی ہیں کہ اس طرح کے امور کے سامنے مسلمان کو کمزوری کا ثبوت نہیں دینا چاہیے۔ مسلمان بندہ کو چاہیے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہی پر اعتماد اور بھروسہ رکھے
، کیونکہ یہ تو موجود ہیں، بلکہ اس سے مراد ان کی تاثیر کی نفی ہے، کیونکہ مؤثر تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،ان میں سے جو سبب معلوم ہو وہ صحیح سبب ہے اور جو سبب موہوم ہو وہ باطل ہے اور تاثیر کی جو نفی ہے وہ اس کی ذات اور سببیت کی أثرپذیری کی نفی ہے،
یعنی کسی بیماری کا متعدی ہونا تو موجود ہے اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ثابت ہے،لیکن جو نفی ہے وہ ہے کہ کوئی بیماری بذات خود متعدی نہیں، اگر اللہ چاہے تو اسکا اثر ہو گا کسی پر نا چاہے تو نہیں ہو گا،

*بیماری کے متعدی ہونے کے دلائل *

میڈیکل سائنس کی طرح اسلام بھی بیماریوں سے بچنے کی تر غیب دیتا ہےاور بیماری کے متعدی ہونے سے انکار نہیں کرتا،

حضرت  ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا يُورِدَنَّ مُمْرِضٌ عَلَى مُصِحٍّ”
ترجمہ: کوئی شخص اپنے بیمار اونٹوں کو کسی کے صحت مند اونٹوں میں نہ لے جائے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5771)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2221)

ایک دوسری حدیث پاک  میں رسول اللہ  ﷺ
 نے فرمایا کہ:
وَفِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ كَمَا تَفِرُّ مِنَ الْأَسَدِ
ترجمہ: جذامی (یعنی کوڑھ والے) شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو”
(صحیح بخاری حدیث نمبر- 5707)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا:
لَا تُدِیْمُوْا اِلَی الَمَجْذُوْمِیْنَ النَّظْرَ
جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالا کرو۔
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3543)

یہی نہیں بلکہ جذامی کی بیماری کے جراثیموں سے بچنے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے ان سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید فرمائی ہے،

حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
“لَا تُدِيمُوا النَّظَرَ إِلَى الْمُجَذَّمِينَ، وَ إِذَا كَلَّمْتُمُوهُمْ فَلْيَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ قِيدُ رُمْحٍ
ترجمہ : جذام زدہ مریضوں پر زیادہ دیر تک نظر نہ ڈالو اور جب تم ان سے کلام کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزے کے برابر فاصلہ ہونا چاہئے
(مسند احمد حدیث نمبر-581)
(بعض علماء نے اسکی سند کو حدیث ضعیف قرار دیا )

یہ شائید اس لئے کہ جب آدمی بات کرتا ہے تو اس کے منہ سے تھوک کے چھینٹے نکلتے ہیں جس میں بیماری کے کافی جراثیم موجود ہوتے ہیں یہ جب مخاطب کے اوپر پڑیں گے تو مخاطب کو بھی بیماری میں مبتلا کر سکتے ہیں،

البتہ مسند احمد والی روایت بعض کے نزدیک  ضعیف ہے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خود کا عمل ایک حدیث میں موجود ہے،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض سے قربت پسند نہیں فرمائی ، بلکہ دور سے ہی اسے واپس بھیج دیا،

امام مسلم رحمہ اللہ نے عمرو بن الشريد سے بيان كيا ہے وہ اپنے باپ سے بيان كرتے ہيں كہ:
” قبيلہ ثقيف كے وفد ميں ايك شخص جذام كا مريض تھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كو پيغام بھيجا كہ
” إِنَّا قَدْ بَايَعْنَاكَ، فَارْجِعْ ”
تم ہم سے بيعت كر چكے ہو لہذا واپس چلے جاؤ ”
(صحيح مسلم حديث نمبر2231 )

یعنی جو جذام کا مریض بیعت کرنے آیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی بیعت دور سے ہی قبول فرماکر واپس بھیج دیا کہ بس بیعت ہو گئی واپس چلے جاؤ، تا کہ اسکی بیماری کے اسباب سے محفوظ رہا جائے، یعنی احتیاط اختیار فرمائی ۔

*اور پھر صرف بیمار شخص سے دور رہنے کا نہیں بلکہ بعض متعدی بیماری والے علاقوں کی طرف سفر کرنے سے بھی منع کیا گیا کہ جہاں کوئی وبا پھیل چکی ہو*

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛
إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا
ترجمہ:
کہ جب تم سن لو کہ کسی جگہ طاعون کی وبا پھیل رہی ہے تو وہاں مت جاؤ لیکن جب کسی جگہ یہ وبا پھوٹ پڑے اور تم وہیں موجود ہو تو اس جگہ سے نکلو بھی مت،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5728)

طاعون جیسی وبائی بیماری کو پھیلنے سے روکنے کیلئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمین کی طرف سفر کرنے سے منع فرمادیا اور اگر کوئی پہلے سے وہاں ہو تو وہ وہاں سے نکل کر کسی دوسرے علاقے میں بھی نا جائے، تا کہ وہ بیماری اسکے ساتھ کسی دوسرے علاقے میں منتقل نا ہو اور اس لیے بھی کہ اللہ پر توکل بھروسہ قائم رہے،

*ان تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بعض بیماریاں متعدی ہوتی ہیں جن سے احتیاط برتنا ضروری ہے*

*بیماری کے متعدی ہونے اور اس سے بچنے کے لئے مندرجہ بالا تمام حدیثوں کی تاکید کے باوجود بھی آج بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو بیماری کے متعدی ہونے کے قائل نہیں ہیں اور بیماریوں سے احتیاط برتنا ان کے نزدیک گویا ایک غیر شرعی عمل ہے،*

صحیح بخاری کی حدیث جو اوپر ہم نے ذکر کی کہ
“لا عدویٰ (کہ چھوت لگ جانے کی کوئی حقیقت نہیں
(صحیح بخاری-5757)
اس سے مراد قطعی یہ نہیں کہ چھوت چھات کوئی چیز نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر واقعی لاعدویٰ سے مراد یہی ہے تو آج کی میڈیکل سائنس اس حدیث کو غلط ثابت کر رہی ہے اور احادیث صحیحہ کبھی بھی غلط ثابت نہیں کی جاسکتیں یہ ہمارا ایمان ہے۔

 اس حدیث کی تشریح میں ریاض الصالحین جلد دوم صفحہ 418 پر لکھا ہوا ہے کہ ” بعض بیماریاں جو متعدی (infectious) سمجھی جاتی ہیں اس میں ان کے متعدی ہونے کا انکار نہیں بلکہ صرف عقیدے کی درستی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اس میں اصل چیز اللہ کی مشیت ہی کو سمجھنا چاہئے نہ کہ کسی بیماری کو”۔
بعض علماء نے لاعدویٰ سے یہ استدلال کیا ہے کہ امراض متعدی نہیں ہوتے۔ان کے متعدی ہونے کا تصور غیر اسلامی ہے۔لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہےاس میں درحقیقت مرض کی چھوت چھات کے جاہلانہ تصور کی تردید ہے۔ یہ دنیا اسباب وعلل کی دنیا ہے۔اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہاں ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب ضرور ہوتا ہے۔بعض امراض میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ ان کے جراثیم تیزی سے پھیلتے ہیں۔ اور جو جاندار بھی ان کے زد میں آتا ہے اس پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کے کسی مرض میں جب کوئی شخص مبتلا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ملنے جلنے والوں کو احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔احتیاط نہ ہو تو وہ بھی اسکی لپیٹ میں آسکتے ہیں لیکن یہ انسان کی نادانی ہے کہ وہ مادی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ اسباب اور ان کے نتائج دونوں اللہ کی مرضی کے پابند ہیں وہ نہ چاہے تو کچھ نہیں ہو سکتا ۔حدیث (لا عدویٰ) کا مطلب یہ ہے کہ بیماری فی نفسہ متعدی نہیں ہوتی بلکہ وہ اگر کسی کو لگتی ہے تو اللہ کے حکم سے لگتی ہے۔

*رسول اللہ ﷺ نے اسباب و علل کا انکار نہیں فرمایا ہے۔ اس بات کا ثبوت کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض متعدی ہونے سے انکار نہیں کیا ہے،جیسا ایک دوسری حدیث میں ملتا ہےجس میں آپ ﷺ نے صاف صاف بیماری کے متعدی ہونے کا ذکر فرمایا ہے*

 ارشاد ہے کہ:
“لا یوردن ممرض علی مصحح”
ترجمہ: ” بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لے جاؤ”
(صحیح مسلم-2221)

اسی حدیث کے پیش نظر میڈیکل سائنس Isolation کی بات کرتی ہے۔ اس میں متعدی مرض میں مبتلا مریضوں کو عام لوگوں سے الگ تھلگ رکھا جاتا ہے۔ بیمار جانوروں کو تندرست جانوروں سے الگ رکھنے کی تاکید اس لئے کی گئی ہے تا کہ بیماری ان میں بھی نہ پھیلے۔

شارح مسلم امام نووی رحمہ اللہ تعالی  فرماتے ہیں کہ:
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ۔ ان میں کوئی تضاد نہیں ۔ پہلی حدیث میں جاہلیت کے اس عقیدہ و خیال کی تردید ہے کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ بیماریوں کے پھیلنے میں اللہ کا کوئی عمل دخل نہیں ہے بلکہ وہ اپنے طور پر پھیلتی رہتی ہے۔
لیکن اس میں اس بات کا انکار نہیں ہے کہ اللہ کے فیصلہ کے تحت متعدی امراض سے نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری حدیث میں اللہ تعالیٰ کی مشیت اور فیصلہ کے تحت جن چیزوں سے بالعموم نقصان پہنچتا ہے ان سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہی جمہور علماء کا مسلک ہے اور اسی کو اختیار کیا جانا چائیے ۔
(شرح مسلم للنووی)

مطلب یہ ہے کہ حدیث میں مرض کے متعدی ہونے کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ مرض ہی کو حقیقی علت سمجھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لئے متعدی امراض سے دور رہنے کی ہدایت بھی ہے۔ لا عدویٰ والی حدیث کے سلسلہ میں یہی باتیں اور یہی تشریح معقول نظر آتی ہے۔ اس لئے کہ آج کی  میڈیکل سائنس کئی انھیں باتوں کو ریسرچ کر کے ہمارے سامنے پیش کر رہی ہے۔ جو صدیوں پہلے قرآن اور احادیث میں بیان کی جا چکی ہیں۔

اور حدیث میں جذام شخص سے بھاگنے کا اور طاعون والے علاقوں میں نا جانے کا حکم اس لیے دیا گیا تاکہ بیماری آگے نہ پھیلے۔ اس حدیث میں بھی بیماری کے متعدی ہونے کا اثبات مؤثر ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن اس کی تاثیر کوئی حتمی امر نہیں ہے۔ کہ یہی علت فاعلہ ہے۔ لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجذوم سے بھاگنے اور بیمار اونٹوں کو تندرست اونٹوں کے پاس نہ لانے کا جو حکم دیا ہے، یہ اسباب سے اجتناب کے باب سے ہے، اسباب کی ذاتی تاثیر کی قبیل سے نہیں،

جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلا تُلقوا بِأَيديكُم إِلَى التَّهلُكَةِ..
(سورة البقرة،آئیت نمبر-195)
’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘

لہٰذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عدویٰ کی تاثیر کا انکار فرمایا ہے کیونکہ امر واقع اور دیگر احادیث سے یہ بات کی نفی ھوتی ھے۔ 

اگر یہ کہا جائے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: 
لَا عَدْویٰ ’’کوئی بیماری متعدی نہیں ہے۔‘‘ تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ! اونٹ ریگستان میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، لیکن جب ان کے پاس کوئی خارش زدہ اونٹ آتا ہے، تو انہیں بھی خارش لاحق ہو جاتی ہے۔ تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ»
’’پہلے اونٹ کو خارش کس نے لگائی تھی؟
(صحیح البخاری، الطب، باب لا صفر، وهو داء یاخذ البطن، ح:5717)

اس کا جواب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر: (فَمَنْ اَعْدَی الْاَوَّلَ) ’’پہلے اونٹ کوخارش کس نے لگائی تھی؟‘‘
اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مریض اونٹوں سے تندرست اونٹوں کی طرف مرض اللہ کی تدبیر کے ساتھ منتقل ہوا ہے۔ پہلے اونٹ پر بیماری متعدی صورت کے بغیر اللہ عزوجل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ایک چیز کا کبھی کوئی سبب معلوم ہوتا ہے اور کبھی سبب معلوم نہیں ہوتا جیسا کہ پہلے اونٹ کی خارش کا سوائے تقدیر الٰہی کے اور کوئی سبب معلوم نہیں ہے، جب کہ اس کے بعد والے اونٹ کی خارش کا سبب معلوم ہے،

اب اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس (دوسرے اونٹ) کو خارش لاحق نہ ہوتی۔ بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اونٹوں کو خارش لاحق ہوتی ہے اور پھر وہ ختم بھی ہوجاتی ہے اور اس سے اونٹ مرتے نہیں۔

اسی طرح طاعون اور ہیضے جیسے بعض متعدی امراض ہیں جو ایک گھر میں داخل ہو جاتے ہیں، بعض کو تو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور وہ فوت ہو جاتے ہیں اور بعض دیگر افراد ان سے محفوظ رہتے ہیں،انہیں کچھ نہیں ہوتا، چنانچہ انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا رکھنا چاہیے،اور اس بھروسہ کو قائم رکھنے کا عملی طریقہ پیش کیا گیا وہ ایک ضعیف حدیث سے ثابت ہے،

جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجذوم شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ ہی کھانے کے برتن میں رکھا اور فرمایا
“كُلْ ثِقَةً بِاللَّهِ وَتَوَكُّلًا عَلَيْهِ”
اللہ پر اعتماد و بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے کھاؤ،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1817)
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3542)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3925)

(یہ روایت ضعیف ہے)
(سند میں مفضل بصری ضعیف راوی ہیں)

(وضاحت_
علماء کا کہنا ہے کہ ایسا آپ نے ان لوگوں کو دکھانے کے لیے کیا جو اپنے ایمان و توکل میں قوی ہیں، اور ناپسندیدہ امر پر صبر سے کام لیتے ہیں اور اسے قضاء و قدر کے حوالہ کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ جو ناپسندیدہ امر پر صبر نہیں کر پاتے اور اپنے بارے میں خوف محسوس کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے آپ نے یہ فرمایا: «جذامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو» چنانچہ ایسے لوگوں سے بچنا اور اجتناب کرنا مستحب ہے

یعنی اس کھانے کو کھاؤ جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تناول فرما رہے تھے، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر توکل بہت قوی تھا اور یہ توکل متعدی اسباب کا مقابلہ کرنے کے لئے اینٹی بائیوٹک کا کام کرتا تھا،

لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ انسان توکل اور تقدیر پر اس قدر راضی ہو جائے کہ بیماری کا علاج بھی نا کروائے، جیسا کہ اوپر بتایا گیا یہ جواز کے لیے ہے، اگر اس سے بچا جائے ۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روسے یہ بات غلط ہے کہ بیماریوں کو تقدیر سمجھ کر آدمی رکا رہے اور ان کا علاج نہ کرائے،

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کہ جس طرح بیماری ایک تقدیر ہے اسی طرح اس کا علاج کرانا بھی تقدیر ہے۔ ایک بدو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ:
”يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلا نَتَدَاوَى” یعنی اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم علاج کرایا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“نَعَمْ ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً””
یعنی ہاں! کیوں کہ اللہ نے ہر بیماری کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔
( مسند احمد حدیث نمبر- 18454)
صحیح

مسند احمد اور ترمذی کی ایک اور روایت ہے کہ ابو خزامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضورر صلی اللہ علیہ وسلم سے علاج و معالجہ کے متعلق دریافت کیا کہ کیا علاج اللہ کی تقدیر کو بدل سکتا ہے؟
 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”هِيَ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ” ”یعنی یہ علاج بھی تو اللہ کی تقدیر میں سے ہے،
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2065)
(مسند احمد حدیث نمبر-15472)

سن 18 ہجری ،خلافت فاروقی میں شام کے قریہ عمواس میں خطرناک اور مہلک طاعون کی وبا پھیلی جس سے ہزاروں صحابہ وفات پا گئے، مؤرخین نے دور فاروقی کا اہم واقعہ شمار کیا ہے۔اس میں بہت اکابر صحابہ کی وفات ہوئی ان میں ابو عبیدہ بن جراح ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان، حرث بن ہشام سہیل بن ہشام رضی اللہ عنھم شامل تھے،

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام کی طرف جا رہے تھے کہ راستہ میں معلوم ہوا کہ وہاں طاعون پھیلاہوا ہے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے مشورہ کرنے کے بعد وہاں جانے کا پروگرام ملتوی کردیا۔ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پتا چلا تو انہوں نے اعتراض کیا کہ امیر المومنین !آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ ہاں ہم اللہ کی ایک تقدیر سے دوسری تقدیر کی طرف بھاگ رہے ہیں۔
(یعنی اگر طاعون کا پھیلنا اللہ کی تقدیر ہے تو اس سے بھاگنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی اللہ کی تقدیرمیں سے ہے،

(طبقات ابن سعد جلد 2 صفحہ85)
( تاریخ ابن خلدون جلد 3 صفحہ 222)

یہی اسلام کا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سبب اور مسیب دونوں چیزیں تقدیر میں لکھ دی ہیں اس لیے بیماریوں کو تقدیر سمجھ کر بیٹھ رہنا اور علاج نہ کرانا اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے،

*لہذا اوپر ذکر کردہ تمام احادیث میں تطبیق کی سب سے بہتر صورت یہی ہے کہ یہ بات درست ہے کہ کئی بیماریاں متعدی ہوتی ہیں،اس لیے ان بیماریوں سے بچنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہیے، اور جس حدیث شریف  میں بیماریوں کے متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے ان سے مراد یہ ہے کہ بیماری بذات خود طاقت نہیں رکھتی کہ وہ کسی کو لگ جائے بلکہ وہ جسکو لگتی ہے اللہ کے حکم سے ہی لگتی ہے، متعدی بیماری والے شخص کے ساتھ ملنے جلنے، کھانے پینے سے احتیاط کی جائے تو زیادہ بہتر ہے، تا کہ بیماری سے محفوظ رہا جائے!https://youtu.be/zGw20Y2nbxg

Comments

Popular posts from this blog

کلام الامام امامالکلام

علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث

نہ کوئ گل باقی رہے گا