قرنطینہ کرونا وائرس

پاکستان میں بعض لوگوں کیلئے قرنطینہ ایک نیا لفظ ہے ۔ پاکستان میں کرونا وائرس کی وبا پھوٹنے اور کرونا کیسز منظر عام پر آنے کے بعد یہ لفظ آج کل بہت استعمال ہورہا ہے کہ فلاں کو قرنطینہ بھیج دیا گیا، فلاں نے خود کو قرنطینہ کرلیا۔۔ کچھ دوست یہ سمجھتے تھے کہ شاید قرنطینہ کوئٹہ کا کوئی علاقہ ہے۔

قرنطینہ کو انگلش میں کوآرن ٹین (Quarantine ) کہتے ہیں۔ کوآرن ٹین (Quarantine ) لفظ ان لوگوں کیلئے نیا نہیں ہے جو کمپیوٹر پر کوئی انٹی وائرس یا انٹی سپائی وئیر استعمال کرتے ہیں۔ کسی انٹی وائرس کی مدد سے جب آپ اپنے کمپیوٹر کو سکین کرتے ہیں تو وہ وائرس سے متاثرہ فائلوں کوآرن ٹین (Quarantine ) کردیتا ہے یعنی کمپیوٹر کی دوسری فائلوں جو وائرس سے متاثرہ نہ ہوں، سے علیحدہ کردیتا ہے تاکہ باقی فائلیں وائرس زدہ نہ ہوں۔۔ انٹی وائرس کی مدد سے یہ کوآرن ٹین (Quarantine ) فائلیں باقی فائلوں کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔

میڈیکل سائنس کی زبان میں قرنطینہ کا مطلب ہے: کسی متعدی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کسی کو کچھ وقت کے لیے یا شفایاب ہونے تک الگ رکھنا ہے تاکہ وہ اس بیماری کی وجہ سے باقی لوگ متاثر نہ ہوں۔ چونکہ کورونا بھی ایک متعدی بیماری ہے لہذا اس سے دوچار افراد یا متاثرہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد کو الگ رکھا جاتا ہے۔

اسلام میں قرنطینہ کا تصور:

قرنطینہ کے تصور پر عمل خلیفہ ثانی حضرت عمررضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا جب انہوں نے شام کا سفر سرغ نامی علاقے میں ترک کرنے کا ارادہ کرکے واپسی کا فیصلہ کرلیا ۔۔۔

سیدنا عمر فاروق شام کے دورے پر جارہے تھے۔ اسی دوران ان کو اطلاع ملی کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے۔ انہوں نے پلٹنا چاہا تو سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح نے اس کی بھر پور مخالفت کی اور کہا کہ آپ شام ضرور جائیں‘ کیا آپ تقدیر الٰہی سے فرار ہونا چاہتے ہیں؟

اس موقع پر سیدنا عبد الرحمن بن عوف آ گئے۔ آپ نے اللہ کے رسول کی حدیث بیان کی کہ آپ نے فرمایا: ’’جب تم کسی شہر میں وبا کی خبر سنو تو وہاں نہ جاؤ اور اگر تم وہاں (پہلے ہی) موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ سیدنا سالم بن عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں:ضرت عمرؓ فاروق شام میں داخل نہ ہوئے اور مدینہ واپس لوٹ گئے۔

ایک روایت کے مطابق قرنطینہ کو حکومت کی جانب سے عوام پر لازمی قراردینے کا پہلا کریڈٹ مشہور اموری خلیفہ الولید بن یزید (706. 707) کے سر ہے ۔۔جذام کی وبا پھیلنے کے بعد اموی خلیفہ نے دمشق میں ہسپتال بنایا جس میں پہلا قرنطینہ بھی بنا یاگیا جہاں جذام کے مریض کو رکھا جانے لگا ۔۔ان کے علاج کے لئے وقت کے ماہر طبیبوں کی خدمات لیں ۔

پاکستان میں قرنطینہ کا تصور

ساٹھ کی دہائی میں پاکستان بالخصوص کراچی میں جذام یا کوڑھ کا مرض پھیلنا شروع ہو گیا تھا۔یہ مرض لا علاج سمجھا جاتا تھا۔ ۔ کوڑھ کا مرض ایک شخص سے دوسرے شخص میں متنقل ہونے والا مرض تھا ۔کوڑھ کے مرض میں مریض کا جسم گلنا شروع ہو جاتا ہے‘ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے ۔کوڑھی اپنے اعضاء کو بچانے کے لیے ہاتھوں‘ ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔

جس انسان کو کوڑھ کا مرض لاحق ہو جاتا ، اسے شہر سے باہر پھینک دیا جاتا ۔۔اور وہ ویرانوں میں سسک سسک کر دم توڑ دیتا تھا۔ پاکستان میں 1960ء تک ہزاروں لوگ اس موذی مرض میں مبتلا ہوچکے تھے۔یہ مرض تیزی سے پھیل رہا تھا اور لوگ اسکا شکار ہورہے تھے۔

کوڑھ کے مرض میں مبتلا افراد کیلئے قرنطینہ کالفظ اس وقت بھی استعمال ہوتا تھا لیکن بہت کم۔۔ زیادہ تر لفظ "کوڑھی ہاؤس” استعمال ہوتا تھا کیونکہ اس وقت حکومت اور ملک کے مختلف مخیرحضرات نے کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر رہائش گاہیں تعمیر کرا دی تھیں‘ یہ رہائش گاہیں کوڑھی خانے کہلاتی تھیں۔ لوگ ان علاقوں سے گزرنے سے کتراتے اور اگر بحالت مجبور ی گزرتے بھی تھے تو آنکھ‘ منہ اور ناک لپیٹ کر ان احاطوں کے قریب سے گزرتے تھے۔

لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ کرونا سے متاثرہ مریض مٹی دھول میں لتھڑی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔اسکے بعد پاکستان اس مرض کو قابو پانے میں کامیاب ہوگیا جس میں ڈاکٹر رتھ فاؤ نامی خاتون کا بہت بڑا کردار ہے۔

جذام کے مرض کو بعد پاکستان میں متعدد بیماریاں آتی رہیں لیکن قرنطینہ سنٹرز کی ضرورت نہیں پڑی مگر کرونا وائرس کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر قرنطینہ سنٹرز کی ضرورت پڑی جس کیلئے پاکستان نے تفتان کے قریب قرنطینہ سنٹر بنایا اور اسکے بعد سکھر، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان، ملتان میں قرنطینہ سنٹرز بنائے گئے ہیں جس کا مقصد کرونا کے تصدیق شدہ یا مشتبہ مریضوں کو آبادی یا صحت مند افراد سے دور رکھنا ہے تاکہ کرونا کا مرض نہ پھیلے۔

قرنطینہ میں رہنے والوں کی زندگی

یہ تصور کیا جاتا ہے کہ قرنطینہ میں رہنے والوں کی زندگی بہت بور ہوتی ہے۔ انکے لئے وقت کاٹنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ان میں نیند، گھبراہٹ اور چڑچڑاپن آجاتا ہے لیکن قرنطینہ میں رہنے والے افراد کوئی نہ کوئی مشاغل یاس رگرمی اپناکر جس سے دوسرے متاثر نہ ہوں، ٹی وی دیکھ کر یا انٹرنیٹ استعمال کرکے وقت گزار سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں مشہور شخصیات نے کرونا وائرس کے شبے میں اپنے قرنطینہ کے ہی کسی کمرے کو قرنطینہ کا درجہ دیا ہوا ہے جہاں وہ اپنے گھر والوں سے علیحدگی اختیار کرکے ، راشن اور ضروری سامان جمع کرکے کچھ دنوں کیلئے اپنے گھر والوں سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں ۔

Comments

Popular posts from this blog

کلام الامام امامالکلام

علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث

نہ کوئ گل باقی رہے گا