ہمارا جسم خداکی مرضی
*🌹ہمارا جسم اور خدا کی مرضی🌹*
*ازقلم✍🏽 مفتی محمد فضیل عطاری دارالافتاء اہلسنت*
اسلامی پابندیوں کا حسن و جمال ہر وہ شخص بخوبی جان سکتا ہے جو اسلام کے واضح احکام کی سمجھ رکھتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ آج کل مسلمانوں کی اکثریت دینی ضروری احکام ہی سے نابلد ہوتی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ کفار و اغیار کی طرف سے اسلامی تعلیمات پر ہونے والے اعتراضات و اشکالات مغرب زدہ اور آزادی پسند مسلمانوں کے مونہوں سے بھی سنے جاتے ہیں یوں سنجیدہ مذہبی طبقہ جو دین کا علم رکھتا ہے یعنی معتبر علماء اور دانشور وں کو دو محاذوں پر کام کرنا پڑتا ہے ایک زمانے سے ایسا ہوتا آرہا ہے اور اب اس قسم کی صورت حال بہت پیچیدہ ہوگئی ہے مگر علمائے حق اپنی آواز تحریر و تقریر کی صورت میں بلند کرتے رہے ہیں اور بلند کرتے رہیں گے تاکہ مسلمانوں کے شکوک و شبہات دور ہو اور ان کا دین و ایمان کفر و گمراہی کی تند و تیز آندھیوں سے محفوظ رہے.
ایک پوسٹ واٹس اپ کے ذریعہ سے آج موصول ہوئی آزادی نسواں کے علمبردار کچھ مرد و عورتیں مظاہرہ کررہے ہیں اور ہاتھوں میں پلے کارڈ ہیں ایک پر لکھا ہے ،۔۔۔
*میرا جسم میری مرضی ۔۔*
اور دوسرے پر لکھا ہے۔۔۔
*یہ چادر یہ چار دیواری گلی سڑی لاش کو مبارک ۔۔۔*
الامان و الحفیظ.
نام نہاد مسلمان کہلانے والے اسلامی تعلیمات کا یوں کھلے عام مذاق اڑائے گے اور عقل کے اندھے ان کے گرد جمع ہوکر اور میڈیا میں اسے دکھا کر حساس مسلمانوں کے دلوں کو لہو لہان کریں گے ایسا کوئی پلان سوچا نہیں جارہا بلکہ اس کا وقوع ہوچکا ہے یاد رہے کہ وقتا فوقتا اس قسم کے نازک مسائل میں چھیڑ چھاڑ بیرونی طاقتوں کے کہنے پر پہلے بھی کی جاتی رہی ہے اور اب بھی کی جارہی ہے.
اولاً تو ان مسلمانوں کو جو دین کے پابند ہے اور دینی احکامات کی دل سے قدر کرتے ہیں مشورہ دوں گا کہ ایسوں کو دیکھنے سننے ہی سے دو ر رہیں اپنی نسلوں کو بھی ایسوں کی صحبت سے دور رکھنے کا انتطام کریں اپنے ارد گرد کا ماحول اسلامی پاکیزہ اور صاف ستھرا ہو اس کا دھیان رکھیں اور معقول بندو بست کریں فی الحال اس کی تفصیل میں نہیں جاتا تھوڑے بہت غور و فکر سے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیا جا سکتا ہے اور اسے پاکیزہ و ستھرا کیسے بنایا جاسکتا ہے اس حوالہ سے کسی منصوبہ بند کوشش کا آغاز کیا جاسکتا ہے.
جہاں تک اس مظاہرہ کا اور اس میں پلے کارڈ پر لکھے ہوئے جملوں کا معاملہ ہے تو خدا و رسول پر ایمان رکھنے والا ان سے شرم و حیا کرنے اور آخرت کے حساب سے ڈرنے والا مسلمان اس کی سنگینی سے خود ہی واقف ہے اس تحریر سے مقصود فقط اتنا ہے کہ بعض وہ مسلمان جن کے بارے میں اس قسم کے لوگوں سے متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے انہیں تنبیہ کی جائے خدا اور اس کے رسول عزو جل و ﷺ کی یاد دلائی جائے قبر و حشر کے امتحان کا احساس دلا کر اس دلفریب ناپاک منصوبے کے بھیانک انجام سے آگاہ کیا جائے.
گندگی جب تک گندی جگہ پر ہو صاف ستھرے ماحول کو خراب نہ کرے ایک حد تک برداشت کی جاسکتی ہے مثلا باتھ روم میں سبھی لوگ اس قسم کے آزادی نسواں کے علمبردار بھی گندگی کرتے بھی ہیں اور کچھ دیر اس کے قرب میں رہتے بھی ہیں لیکن وہیں بستر لگا کر سوتے نہیں، اسے ڈرائنگ روم کے طور پر استعمال نہیں کرتے اس سے گھن کھاتے ہیں مگر جس کا ذہنی توازن درست نہ ہو وہ اپنے کپڑے اور بدن نجاست سے آلودہ بھی کرلیتا ہے اور اسی طرح گھر کے صاف ستھرے گوشوں میں بلکہ گھر سے باہر بھی نکل جاتا ہے دیکھنے والے اسے عقل و خرد کے تمغے نہیں پہناتے بلکہ اس کے گھر والوں محلے پڑوس میں بسنے والوں کو پاگل خانے میں جمع کرانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ لوگ اس کی اذیت سے محفوظ رہیں.
یہی حال اس قسم کے مظاہرہ کرنے والوں کا ہے مغرب کا گند ڈھونڈ کر اپنے اسلامی ملک کے صاف ستھرے ماحول میں لائے اور سرے عام گندگی کا مظاہرہ کرکے دوسروں کو اس گند سے لتھیڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ان کا ایک ہی علاج ہے کہ ان سے دور رہا جائے اس کی پر زور مذمت کی جائے اپنی آل و اولاد کو اور اس ملک پاکستان میں بسنے والے جملہ افراد کو ان گندی ذہنیت کے لوگوں سے دور رکھنے کی بھر پور کوشش کی جائے اور حکومتِ وقت کو ان کا کیا علاج کرنا چاہئے.
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جو اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر بنا ہے اس حوالہ سے اربابِ اقتدار کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے اس فحاشی کے نئے نقطہ آغاز کو اور اس کے علمبرادروں کو قرار واقعی سزا دینی چاہئے تاکہ کوئی دوسرا سر پھرا اس قسم کی حرکت کا تصور بھی نہ کریں
یاد رہے کہ مسلمان خواتین کو ضروری پردے کا اور شرم و حیا کا اسلامی درس ان کی آزادی پر پابندی نہیں بلکہ ان کے انتہائی اہم و بیش قیمت ہونے کی دلیل ہے اس میں ان کی عزت و ناموس کی حفاظت ہے جسمانی اور نفسیاتی اور دماغی بیماریوں سے تحفظ ہے باپردہ رہ کر معاشرے میں ستھرے کردار کے ساتھ آنے والی نسلوں کی تیاری کا شعور و احساس دلانا ہے کہ جب وہ ان مختصر سی محدود پابندیوں کے ساتھ اپنے نفس کو کنٹرول کرلیں گی تو ان کے باپ بھائی بیٹے سر اٹھا کر اعتماد کے ساتھ دین و دنیا کے بہت سے اہم کام سر انجام دے سکیں گے ورنہ بے حیا عورت کے بے غیرت باپ، بھائی یا بیٹے کی صورت میں کبھی وہ دین و دنیا کا بڑا کام سر انجام نہیں دے سکتے بظاہر دنیاوی ترقیوں میں ان کا کچھ کام دکھائی بھی دے گا تو اس کا انجام بھیانک ہی نکلے گا جیسا کہ نکل رہا ہے معاشرے کو فحاشی کا گھن دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے دینی اور اخروی نقصان تو اپنی جگہ دنیا میں بھی بے غیرتی اور بے حیائی کی وجہ سے سکون غارت ہوگیا ہے اور طرح طرح کے امراض جدا ہیں لوگوں کی نظروں میں رسوائی جدا.
مثالوں کی ضرورت نہیں جہاں آزادی نسواں کے نام پر اس قسم کا مکروہ دھندہ ہوتا ہے وہاں کی سوسائٹی کس قدر خراب ہو چکی ہے اور خاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے اس حوالہ سے اخبارات وغیرہ میں آئے دن آرٹیکل چھپتے رہتے ہیں، وہاں بسنے والے مسلمان اس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں اور اس مسموم فضا میں کس طرح خود کو اور اولاد کو بچایا جائے اس کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں.
الغرض مظاہرہ کرنے والے بے حیا مردوں اور عورتوں کی بجائے اپنے ایمان کو آواز دے کر پوچھیں :
*کیا اللہ نہیں دیکھ رہا؟*
*کیا اس نے قرآنِ پاک میں جا بجا بے حیائی کی مذمت نہیں فرمائی؟*
*قیامت کے سخت حساب کے خوف سے نہیں ڈرایا؟*
*کیا صرف دنیا ہی کی زندگی ہے مرنے کے بعد اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا؟*
اپنے ان بنیادی عقیدوں کے گہرے تصور میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اللہ رب العزت سے اپنے ایمان اور اعمال کی حفاظت اور گناہوں اور بے حیائی کے شیطانی کاموں اور اس قسم کے شیطانوں سے پناہ کی سچے دل سے دعا کریں.
حدیث شریف میں ہے :
"جو اللہ سے پارسائی چاہتا ہے اللہ تعالی اسے پارسا بنادیتا ہے."
ہم اللہ کے محکوم بندے ہیں ہمارا جسم بھی اس کا پیدا کردہ ہے اسی کے احکامات کا پابند ہے ہمارا جسم ہی نہیں ہماری جان ہمارا مال کاروبار گھر بار الغرض سب کچھ اسی پاک پروردگار کا ہی تو ہے۔۔۔
چلے گی تو اسی کی مرضی چلے گی ۔۔
ناپاک بد کردار مادر پدر آزاد اپنی بے جا آزادی کے جتنے نعرے مارنے ہیں مارلیں.
اللہ رب العزت اور اس کے رسول کریم ﷺ کے دئے ہوئے احکامات کی پابندی سعادت مند کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔۔
یہ چند لوگوں کا ایک مظاہرہ تھا دین سے محبت کرنے والے ۔۔۔
*ہمارا جسم اور خدا کی مرضی۔۔۔*
والے پلے کارڈ اٹھا کر ہزار مظاہرے بھی کرسکتے ہیں لیکن اصل کام تو پردے کی پابندی اور شرم حیاء کے مطابق زندگی گذارنا ہے.
ان شاء اللہ تعالی ایسے باعمل مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا.
*ابو الحسن فضیل رضا قادری عطاری*
18 مارچ2018
Comments
Post a Comment