مسلمان اور مشرکین یہود

’’انھیں کسی طرح یہ گوارا نہیں کہ سر زمینِ ہند میں مسلمانوں کا وجود رہے۔''
*اقتدار، وجودِ مسلم اور ہماری ذمہ داریاں*
[افکارِ صدرالافاضل کی روشنی میں]

غلام مصطفیٰ رضوی*

    اِس زمانے میں مشرکین کی سازشیں شباب پر ہیں۔ ان کی مہم تو ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے۔ انھیں مسلمانوں کا وجود کھٹکتا ہے۔انھیں یہ گوارہ نہیں کہ مسلمان ہند میں رہیں۔ انھیں یہ خدشہ ہے کہ اسلام اِس سرزمین پر باقی رہ گیا تو تمام خود ساختہ نظریات رفتہ رفتہ دَم توڑ جائیں گے۔ اِس لیے کہ اسلام دینِ فطرت ہے جو دلوں میں گھر کر لیتا ہے۔یہی دینِ برحق ہے؛ جس میں کشش بھی ہے اور استقرار بھی۔ اس لیے بقول صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مرادآبادی: 

    ’’انھیں کسی طرح یہ گوارا نہیں کہ سر زمینِ ہند میں مسلمانوں کا وجود رہے۔‘‘(۱)

    ایک صدی پیش تر انگریز کے عہد میں بھی مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے لیے سازشیں رچی گئی تھیں۔اس زمانے میں علماے حق سر سے کفن باندھ کر میدان میں آئے۔ ملک کی آزادی کی پہلی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء میں لڑی گئی۔ جس کے قائدین میں علامہ فضل حق خیرآبادی(م ١٨٦١ء/١٢٧٨ھ) کا نام نمایاں ہے۔ یہی کارواں آگے بڑھا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اس کے نمایاں قائدین میں ایک نام صدرالافاضل علامہ سید نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمہ (م١٩٤٨ء/١٣٦٧ھ) کا ہے۔ جنھیں اعلیٰ حضرت سے کئی جہتوں سے خصوصی فیض حاصل ہے۔ آپ عظیم مدبر، ماہر سیاست داں اور مفسر اعظم تھے۔ آپ نے انگریزی استبداد کے خلاف جدوجہد کی ہے؛ مشرکین کی سازشوں سے بھی مسلسل پردہ کشائی کا فریضہ انجام دیا۔ ہند کے طول و عرض میں انگریز و ان کے ہم نوا مشرکین کی سازشوں سے اہلِ ہند کو باخبر و متنبہ کرتے رہے۔ اپنے عہد میں اہلِ ہند کو جگاتے رہے، فتنوں سے خبردار کرتے رہے۔خطرات سے نمٹنے کی سعی و کوشش فرماتے رہے۔ ۱۳؍ شعبان ۱۳٦٤ھ کے محررہ مکتوب بنام تاج العلماء سید محمد میاں مارہروی میں لکھتے ہیں:

    ’’اسلام و مسلمین پر اس وقت دنیا میں جو فتن کے سیلاب آ رہے ہیں اور جو خوف ناک خطرے سامنے ہیں، وہ واجب کرتے ہیں کہ حامیانِ ملت حمایتِ دین کے لیے تمام ممکن مساعی کام میں لائیں۔‘‘ (۲) 

    آج اس سے جُدا حالات نہیں۔عالمی صورتِ حال بھی نازک ہے۔ مسلمانوں کے خلاف تمام باطل قوتیں یک جا ہو چکی ہیں۔ CAA جیسے قانون اور NRC کے ذریعے مسلمانوں کو ہند میں ختم کرنے کی پلاننگ کی جا چکی ہے۔ اِس درمیان ٹرمپ کا ہند دورہ اِس بات کا اشاریہ تھا کہ امریکہ کی عالمی سطح پر تائید ہند کے ظالم اقتدار کے ساتھ ہے۔ 

    صدرالافاضل نے اپنے ایک مکتوب محررہ۹؍ نومبر١٩٤٦ء میں مشرکین کی ریشہ دوانیوں پر کئی اہم نکتے درج فرمائے ہیں۔ تجاویز دی ہیں۔ جو بڑی مؤثر، ممکن العمل، افادہ بخش ہیں۔ جن کی حال کے شامیانے میں اتنی ہی ضرورت ہے جتنی ٨٠ برس قبل تھی۔ اُمید کہ اہلِ خرد ان پر توجہ کریں گے۔ اور موجودہ مشکل حالات میں انھیں رو بعمل لا کر دُشمنانِ اسلام کی یورش کا پامَردی و عزم سے مقابلہ کریں گے۔ یہاں مکتوب کے چند اقتباسات بِلا تبصرہ تحریر کیے جاتے ہیں۔ (ضمنی عناوین راقم کے قائم کردہ ہیں۔)

*لیڈران کی اشتعال انگیزی:*
    ہندو حکومتوں کے یہ پہلے امتحان ہیں جو بہار اور گڑھ....میں ظاہر ہوئے اور ان تجربوں سے ہندو اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمانوں کے قتل و غارت میں وہ بغیر کسی خطرے کے کامیاب رہیں گے۔ ان امتحانوں سے ان کے حوصلے بڑھ گئے اور ان کے لیڈر ہر دم اشتعال انگیزی میں مصروف ہیں، (۳)

*تازیانۂ عبرت یا سزا:*
    مگر یہ واقعات مسلمانوں کے لیے تازیانۂ عبرت ہیں، اور اس جرم کی سزا ہیں کہ مسلمانوں نے خداوند عالم اور اس کے رسول ﷺ کے حکم کے خلاف ہندوؤں سے دوستی اور محبت کی تھی، اور ان کے ساتھ وِداد و اتحادکے رشتے جوڑے تھے، ان پر اعتماد رکھتے تھے، اور ہندوؤں کی غلامی میں اپنی عزت جانتے تھے اور ابھی تک بہت سے اسی مصیبت میں گرفتار ہیں۔ ایسے ہولناک مظالم کے بعد بھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں اور ان کے دلوں میں ان مظلوم مسلمانوں کی حالتیں دیکھ کر بھی رحم نہ آیا۔

    قدرت کی طرف سے یہ ایک تنبیہ ہے اور ہر عہد میں قدرت کی طرف سے تنبیہات ہوتی رہی ہیں، جو قومیں ایسی تنبیہات سے عبرت حاصل کر کے اپنی حالتیں درست کر لیتی ہیں قدرت ان کی اعانت فرماتی ہے۔ اور ان کے مرتبے بلند ہو جاتے ہیں۔(۴)

*احکام اسلامی کو دستورِ زندگی بنائیں:*
    اگر اس وقت مسلمان توبہ و استغفار کر کے اسلام کے احکام کو اپنا دستورِ زندگی بنا لیں اور اپنی ہر اَدا و وضعِ عمل اور ہر شعبہ جات میں اسلام کے احکام پر عامل ہوں تو بہت جلد حالت بدل جائے اور پستی و بے بسی کی بجائے ان کی قوت شوکت سطوت کے علَم لہراتے نظر آئیں۔(۵)

*لائحۂ عمل:*
[۱]ان واقعات نے سبق دیا ہے کہ مسلمان جہاں بہت اقلیت میں ہیں وہ سمٹ کر ایک ہو جائیں۔ ہر ہر مقام پر حلقے قائم کر کے ایک اسلامی بڑی بستی بنائیں جس میں قرب و جوار کے تمام مسلمان یکجا آباد ہوں۔ اپنا صوبہ چھوڑ کر دوسرے صوبے میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اتنا کافی ہے کہ چھوٹی چھوٹی بستیوں کو ملا کر جا بجا بڑی بستیاں بنائی جائیں۔ 
[۲]اور اپنی حفاظت کا سامان اپنے پاس رکھا جائے۔ نمازوں کی پابندی کی جائے اور حفاظتی تدبیریں باہمی مشورے سے عمل میں لائی جائیں۔ اس طرح مسجدیں بھی محفوظ ہو سکیں گی۔ اور خطرے بھی دور ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ الرحمٰن۔ 
[۳] پھر مجمع کر کر کے حکومت سے مطالبے کیے جائیں کہ مسلمان جان و مال کا اتنا بڑا نقصان اُٹھا چکے ہیں جس کی مثال تاریخ میں نہیں ہے..... اس کا سبب یہی تھا کہ وہ ہندوؤں کو اپنا ہمسایہ سمجھتے تھے۔ ان پر اعتماد رکھتے تھے۔ متفرق طور پر ہندوؤں کی بستیوں میں چھوٹی چھوٹی تعداد میں آباد تھے۔ مسلمان جنگ جو نہ تھے۔ ان کے پاس سامانِ حرب تو کیا اپنی حفاظت کی بھی کوئی تدبیر نہ تھی۔ ہندو منظم تھے۔ مسلح تھے۔ مسلمان ان کے حملوں سے اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔ حکومت نے کیا انتظام کیا ہے کہ آئندہ ایسا واقعہ پیش نہ آسکے۔ حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا جائے کہ مسلمان نہایت خوف زدہ ہیں۔ انھیں اپنے حفاظت جان و مال کے لیے ہر قسم کے اسلحہ رکھنے کے لیے عام اجازت دی جائے یا سارے صوبے کے کل ہتھیار ضبط کر لیے جائیں۔ اور کسی کو ایسے ہتھیار رکھنے کی اجازت نہ دی جائے جو ہلاکت کا باعث ہو سکتے ہیں اور تمام لائسنس ضبط کر لیے جائیں۔
[٤]مسلمانوں کو اپنی یکجائی بڑی بستیاں قائم کرنے میں مدد دی جائے۔ یہ مطالبے جاری رکھے جائیں اور بار بار کیے جائیں۔وزیر اعظم سے بھی صوبے کے گورنر سے بھی وائسرائے اور وزیر ہند سے بھی اور برطانیہ کے بادشاہ سے بھی۔
[۵] اپنی تنظیم خود کرو۔ اپنے نوجوانوں کو ورزشیں کراؤ۔ ان میں باہمی ہمدردی کے جذبے پیدا کرو۔ دُشمن سے محفوظ رہنے کی تدابیر سوچو اور عمل میں لاؤ۔ اپنے ہر کم زوراور حاجت مند کی امداد کرو اور سمجھو کہ ہم خود اپنی مدد کریں گے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ (٦)

    مذکورہ اقتباسات میں حال کے لیے مضبوط لائحۂ عمل موجود ہے۔ تدابیر ہیں۔ حکمت و دانش کے ساتھ حالات کے رُخ موڑنے کے پُر امن منصوبے ہیں۔ مسلم بستیوں کے تحفظ کی تدبیر ہے-  قانونی سطح پر اپنے تحفظ کے لیے ایسے مطالبات ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یوں ہی اسبابِ زوال بھی بیان کیے گئے ہیں، ان کے تدارک کی صورتیں بھی وضع کی ہیں۔ 

    علما و قائدین سے گزارش ہے کہ نصف صدی قبل جو تجاویز و نصیحتیں صدرالافاضل نے پیش کی ہیں؛ ان پر توجہ دیں اور حال کی منصوبہ بندی میں اِن سے مدد لیں تا کہ قوم کی رگوں میں عزم و حوصلہ کا تازہ لہو فراہم ہو۔ یاسیت کے اندھیرے دَم توڑ جائیں۔ اُمیدوں کی صبح اسلاف کی حکمتِ عملی کے دامن سے نمودار ہو۔

*حوالہ جات:*
(۱)مکاتیب صدرالافاضل، مرتب مفتی محمد ذوالفقار خان نعیمی،نوری دارالافتاء کاشی پور۲۰۱۷ء،ص۸۱
(۲) مرجع سابق،ص ۸۶۔۸۷
(۳)مرجع سابق،ص ۱۱۱
(۴)مرجع سابق 
(۵)مرجع سابق
(٦)مرجع سابق،ص۱۱۱۔۱۱۲ 

Comments

Popular posts from this blog

کلام الامام امامالکلام

علماء انبیاء علھیم السلام کے وارث

نہ کوئ گل باقی رہے گا