مفتی دارلافتاء صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ امام جامع مسجد نور مہتتم مدرسہ فیضان بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنمنٹ نکاح رجسٹرار و نکاح خواں۔ایم۔اے۔اسلامیات۔ایم۔اے۔عربک۔فاضل درس نظامی۔حافظ قاری۔مفتی عاطف محسن مئیو قادری مدنی
مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام اعلیٰ حضرت مجدددین وملت الشاہ اما م احمدرضا خان علیہ الرحمہ والرضوان کا لکھا ہوا منظوم سلام'' مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام'' آفاقی شہرتوں کا حامل کلام ہے۔ یہ سلام کل (ایک سو اکہتر)171/اشعار پر مشتمل اردو زبان کا سب سے طویل سلام ہے۔ جس کے ایک ایک شعر میں زبان و بیان، سوز و گداز، معارف و حقائق، سلاست و روانی، قرآن و حدیث اور سیرتِ طیبہ کے جو رموز و اسرار موج زن ہیں وہ امام احمد رضا کی انفرادی شاعرانہ حیثیت کو نمایاں کرتے ہوئے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کی والہانہ وارفتگی کا اظہاریہ بھی ہیں۔ اس سلام کی دیگر خصوصیات میں ایک نمایاں خصوصیت اس کی حسین و جمیل ترتیب ہے۔ اس کا عربی و انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے، عربی ترجمہ جامعہ ازہر کے استاد حازم محمد احمد محفوظ نے 1999ء میں المنظومۃ السلامیۃ فی مدح خیر البریۃ کے نام سے شائع کرایا۔ جب کہ اس عربی ترجمے کی تشریح و مقدمہ ڈاکٹر حسین نجیب مصری نے لکھا۔ ضرورت اس امرکی تھی کہ ا س بابرکت سلام کے اشعار کو سمجھنے کے لیے سہل اندازمیں شرح کی جائے تاکہ ہرعام وخاص اس مبارک سلام سے ایمانی وروحانی چاشنی...
علامہ قاضی عبد الرزاق بھترالوی صاحب کا انتقال ؛ ایک سنجیدہ علمی روایت کا خاتمہ مولانا قاضی عبد الرزاق بھترالوی ( راولپنڈی) علم و فضل کی ایک سنجیدہ و متین روایت کو اپنے ساتھ لے گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون درسیات کی ابتدا سے ہی قبلہ قاضی صاحب کا نام نامی دل میں گھر کر گیا تھا۔ گو کہ نہ کبھی ان کو دیکھا نہ گفتگو سنی۔ لیکن اس میں حیرت کی بھی کوئی بات نہیں۔ وہ خود بھی کہاں اس راہ چلے کہ کوئی ان کو دیکھے یا بات سنے۔ وہ تو قلم کی دنیا کے شہسوار تھے۔ اور زندگی بھر اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا۔ ایسا کون شخص ہو گا جس کو عربی و اسلامی درس و تدریس سے واسطہ رہا ہو اور اس نے علامہ بھترالوی کے قلم کی ضیافت سے حظ نہ اٹھایا ہو۔ یاد آتا ہے کہ ہم لوگ فقہ کی بنیادی درسی کتاب "نور الایضاح" پر تحریر کردہ علامہ صاحب کے حواشی بہت شوق سے پڑھا کرتے تھے۔ ان حواشی کی خصوصیت یہ تھی کہ ایک تو بہت عمدہ نکات پر مشتمل ہوتے تھے۔ دوسرے یہ کہ نہایت سہل اور رواں عربی زبان میں ہوتے تھے جس سے ہمیں یہ فائدہ حاصل ہوتا کہ کتاب کا متن بھی خوب واضح ہو جاتا ، متن سے جڑی ہوئی کئی مفید علمی و فقہی ابحاث بھی...
تحریر : پروفیسر عون محمد سعیدی مصطفوی بہاولپور *آہ! آبروئے علم و قلم،سید محمد فاروق القادری* یہ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا، جب میں کتابوں کے عشق میں ملتان کے ایک ایک مکتبے کی خاک چھانتا تھا اور کئی کئی گھنٹے ہر ہر علم و فن کی کتابیں اٹھا اٹھا کر ان کی ورق گردانی کرتا تھا ، یہاں تک کہ مکتبے والا تنگ آ کر مجھے صراحتا یا کنایتا روانگی کا عندیہ دیتا.. اسی دوران سید محمد فاروق القادری کی کتب *انفاس العارفين کا ترجمہ* اور *فاضل بریلوی اور امور بدعت* میری نظر سے گزریں، کتابیں بھی بہت پسند آئیں نیز مترجم و مصنف کے نام کے ساتھ گڑھی اختیار خان بہاولپور لکھا دیکھ کر ملنے کا بھی اشتیاق پیدا ہوا. تب ذہن میں خیال تھا کہ گڑھی اختیار خان شاید بہاولپور شہر کا کوئی مضافاتی علاقہ ہے ، سو جب ایک مرتبہ ملتان سے بہاولپور اپنے گھر والدین سے ملنے آیا تو سخت گرمی کے باوجود سائیکل اٹھائی اور سید محمد فاروق القادری کو ڈھونڈنے بہاولپور ریلوے اسٹیشن سے پار نکل گیا.. وہاں میں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا تھا کہ گڑھی اختیار خان کس طرف ہے؟ کوئی کہتا پتہ نہیں ہے اور کوئی کہتا فلاں سمت چلے جاؤ شاید اس طرف ہو گا، کئی ...
This comment has been removed by the author.
ReplyDelete