عرس امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
*شانِ امیر معاویہ رسول اللہ و اہل بیت کی نظر میں*
( ٢٢/ رجب المرجب یوم وصال پہ خصوصی تحریر)
✍️ شاداب امجدی برکاتی
جامعہ احسن البرکات مارہرہ شریف
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے جن کا شمار مشکل ہے، مثلاََ انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، اسلام کو فتوحات ملیں، جو علاقے دار الکفر تھے در الاسلام بن گئے، اس وجہ سے لاکھوں لوگ دائرۂ اسلام میں فاخل ہوئے، اب ان کی اولادیں قیامت تک مسلمان رہیں گی، ان تمام نیکیوں کا ثواب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نامۂ اعمال میں ضرور داخل ہوگا ۔ آپ ام المؤمنين حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہونے کی وجہ سے خال المؤمنین بھی کہے جاتے ہیں ۔ تاریخی تناظر میں اگر آپ کے فضائل کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں ہر دور میں آپ کے فضائل بیان کرنے والی اجلہ شخصیات نظر آتی ہیں لیکن اس تفصیل سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور خاندان نبوت کے معزز افراد کے اقوال و ارشادات پیش کیے جاتے ہیں جن کو معتمد علما نے اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ۔
تعلیم کتاب کی دعا حضور اکرم ﷺ نے حضرت عبد اللہ ابن عباس اور دو ایک صحابہ رضی اللہ عنہم کے لیے فرمائی ۔ یہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خوش نصیبی ہے کہ وہ بھی انہیں حضرات میں سے ایک ہیں ۔ فرمان رسالت ہے : " اللہم عَلّم معاویۃ الکتاب و الحساب و قہ العذاب" اے اللہ! معاویہ کو کتاب اور حساب سکھا دے اور عذاب سے محفوظ فرما۔ ( صحیح ابن حبان 7210)۔
حضرت امیر معاویہ کے لیے خلافت اسلامیہ کی پیشین گوئی کے ساتھ ساتھ آپ کی بے پناہ طاقت و قوت، عزم و استقلال کے متعلق سرکار کائنات ﷺ کا یہ ارشاد گرامی پڑھیں جس پر تاریخی حقائق بھی شاہد ہیں کہ " إن معاویۃ لا یصارع احداََ الّا صرعہ معاویۃ" لڑ بھڑ کر معاویہ پر غلبہ حاصل نہیں کیا جاسکتا ۔ ( اسد الغابہ ج 4 ص 387)۔
آخرت میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر انعامات الٰہی اور فیوض ربانی کا ذکر سرکار دوعالم ﷺ نے ان الفاظ میں فرمایا :" بعث اللہ معاویۃ یوم القیامۃ و علیہ رداء نور الإیمان " اللہ تعالیٰ بروز قیامت معاویہ کو اس حالت میں اٹھائے گا کہ ان پر نور ایمان کی چادر ہوگی ۔ ( کنز العمال ج7 ص 190)۔
حضرت امیر معاویہ کی وسعت قلبی اور حلم و بردباری کا تذکرہ زبان نبوی نے ان الفاظ میں کیا ہے :" معاویۃ بن ابی سفیان أحلم امتی و اجودھا " معاویہ ابن ابو سفیان میری امت میں سب سے بڑا بہادر اور سخی ہے ۔ ( تاریخ دمشق ج12 ص 365) ۔
حضرت امیر معاویہ کو زبان رسالت سے جو دعاؤں کی سوغات ملی اسے بھی ملاحظہ فرمائیں؛ ایک موقع پر ارشاد فرمایا : " اللھم اجعلہ ھادیاََ مھدیاََ و اھد بہ " اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت یافتہ اور لوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنا ۔ ( سنن ترمذی، باب فضائل معاویہ 3842) ۔
حضرت ابو البختری سے مروی ہے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے اہل جمل ( حضرت امیر معاویہ اور ان کے اصحاب) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا :" اخواننا بغوا علَینا" ہمارے بھائی ہیں وہ جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ۔ ( سنن الکبریٰ للبیہقی ج 8 ص 173) ۔
مولائے کائنات کرم اللہ وجہہ الکریم کے اس مذکورہ فرمان کو صدق دل سے بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے کہ حضرت علی نے ان کو اپنا بھائی مانا ہے لہٰذا حب علی کا تقاضا ہے کہ ہم بھی مشاجرات صحابہ میں نہ پڑیں اور صحابہ کا اچھائی کے ساتھ ذکر کریں ۔ اللہ توفیق دے ۔
مزید یہ بھی کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے ایک خط لکھ کر اکثر شہروں میں بھیجا کہ " ہمارا اور امیر معاویہ کا خدا ایک ہے، رسول ایک ہے، دعوت اسلام ایک ہے، ہماری حالتیں یکساں ہیں، بس خون عثمان میں اختلاف ہوگیا ۔" ( نہج البلاغہ مترجم ص 467)۔
حضرت عبد اللہ بن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کیا گیا کہ آپ امیر معاویہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں کیونکہ وہ وتر ایک ہی رکعت پڑھتے ہیں تو آپ نے جواب دیا :" أصاب، أنہ فقیہ "۔ ان کا عمل درست ہے کیونکہ وہ فقیہ ہیں ۔ ( صحیح البخاری 3765)۔
ایک موقع پر آپ ( حضرت عبد اللہ بن عباس) نے اپنے غلام سے فرمایا : " أی بنی! لیس أحد منا اعلم من معاویۃ" ۔ کہ ہم میں سے کوئی بھی معاویہ سے زیادہ علم والا نہیں ۔ ( مسند امام شافعی ص 86)۔
. حضرت قتادہ نے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : " یا أبا سعید! إن ھٰھنا ناساََ یشھدون علی معاویۃ أنہ من اھل النار، قال : لعنھم اللہ! و ما یدریھم من فی النار " ۔ اے ابو سعید ( امام حسن) کچھ لوگ ہیں جو معاویہ کو جہنمی کہتے ہیں۔ (معاذ اللہ)، آپ نے فرمایا : اللہ کی لعنت ہو ان پر! انہیں کیا خبر کہ جہنم میں کون ہے؟ ۔ (الاستیعاب 446)۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لیے حضرت امیر معاویہ نے وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جس کو امام حسین بخوشی قبول کرتے تھے
حضرت داتا گنج بخش ہجویری علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :" سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس ایک ضرورت مند اپنی حاجت لے کر حاضر ہوا، آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ، ہمارا رزق راستے میں ہے ۔ تھوڑی دیر میں دینار کی پانچ تھیلیاں حضرت امیر معاویہ کی طرف سے پہنچ گئیں ۔ ہر تھیلی میں ایک ہزار دینار تھے ۔ قاصد نے عرض کیا کہ امیر معاویہ دیر سے وظیفہ پیش کرنے پر معذرت کر رہے تھے ۔ آپ نے وہ پانچ تھیلیاں ضرورت مند کو دے دیں اور اتنی دیر بٹھائے رکھنے پر معذرت چاہی ۔ ( کشف المحجوب ص77) ۔
اہل بیت کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت لینا بھی آپ کی فضیلت و صداقت اور عدالت و ثقاہت کی دلیل ہے ۔
امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ج 4 ص 97 پر ' عن محمد بن علی ابن الحنفیۃ عن معاویۃ بن ابی سفیان' کے طور پر حضرت امام محمد بن علی بن ابی طالب یعنی محمد ابن حنفیہ سے روایت بیان کی ۔
حضرت عبد اللہ بن امام أحمد بن حنبل نے زوائد المسند ج 4 ص 97 پر ایک حدیث اس طریقے پر بیان فرمائی ' عن جعفر بن محمد عن ابیہ عن ابن عباس عن معاویۃ' ۔
نجیب الطرفين حضرت غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی بغدادی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : " امام حسن رضی اللہ عنہ کے صلح کرنے سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت واجب ہوگئی ۔ اس سال کا نام" سن جماعت " اس لیے رکھا گیا کہ مسلمانوں کا اختلاف ختم ہوگیا اور سب نے حضرت امیر معاویہ کی طرف رجوع کرلیا پھر کوئی تیسرا مدعی خلافت باقی نہ رہا ۔ ( غنیۃ الطالبين مترجم ص 165)
مزید آگے فرماتے ہیں : " رہا امیر معاویہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہم کا معاملہ تو وہ بھی حق پر تھے اس لیے کہ وہ خلیفہ مظلوم کے خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور قاتل حضرت علی کے لشکر میں موجود تھا، پس ہر فریق کے پاس جنگ کے جواز کی ایک وجہ موجود تھی، لہٰذا ہمارے لیے سکوت اس سلسلے میں سب سے اچھی بات ہے، ان کے معاملے کو اللہ کی طرف لوٹا دینا چاہیے، وہ سب سے بڑا حاکم اور بہترین فیصلہ کرنے والا ہے، ہمارا کام تو یہ ہے کہ ہم اپنے عیوب پر نظر ڈالیں اور دلوں کو گناہوں کی چیزوں سے اور اپنی ظاہری حالتوں کو تباہی انگیز کاموں سے پاک اور صاف رکھیں ۔ (ایضاََ ص186) ۔
خاتم اکابر ہند ، حضرت ابو الحسين احمد نوری میاں مارہروی علیہ الرحمہ " دلیل الیقین من کلمات العارفين" میں جن صحابہ کو جنت کی بشارت دنیا میں ہی دی گئی ان کا ذکر کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :"اور صحابیوں میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے باپ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ بھی تھے ۔ اور ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور حضرت امیر معاویہ کی بہن جن کا نام پاک حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا تھا؛ رسول اللہ ﷺ کے نکاح میں تھیں ۔ یہ سب صاحب اور باقی تمام صحابہ سب بڑے رتبے والے تھے، ان میں کسی پر طعن کرنا اپنے دین کی شامت لگانا ہے " ۔( ص 501)۔
اللہ ہمیں صحابہ عزت و توقیر بجا لانے اور اس کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
https://youtu.be/ZBsN2x8XbDM
Please
Subscribe
Like
&
Shere
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو جبرائیل امین علیہ السّلام کے مشورے سے کاتبِ وحی بنایا جبرائیل امین علیہ السّلام نے عرض کیا معاویہ امانت دار ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےلیئے دعائیں فرمائیں اور فرما یا اے معاویہ میں تم سے ہوں اور تُم مجھ سے ہو تم میرے ساتھ جنّت میں ہوگے ۔ (سیرتِ حلبیہ مترجم اردو جلد نمبر 5 صفحہ 289 مطبوعہ دارالاشاعت اردو بازار کراچی،چشتی) ۔ مزید اصل مترجم سیرت حلبیہ کے دیئے گئے اسکن میں پڑھیں ۔
Comments
Post a Comment